میں شکار کھیلنے کے بعد گھر کے باغ کی روش پر سے گزر رہا تھا۔ میرا وفادار کتا مجھ سے چند گزوں کے فاصلے پر دوڑتا چلا جا رہا تھا۔ یک لخت اس کی رفتار مدھم پڑ گئی۔ اگلے پنجوں کو اس طرح اٹھانے لگا گویا کسی شکار کو سونگھ رہا ہے۔ جب میں نے روش پر نظر دوڑائی تو مجھے قریب ہی زمین پر چڑیا کا ایک بچہ دکھائی دیا جس کی چونچ زرد تھی اور بدن پر نرم نرم روئیں اُگ رہے تھے۔ یہ غالباً اپنے گھونسلے سے گر پڑا تھا کیونکہ آج ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور روش کے آس پاس لگے ہوئے درخت زور زور سے ہل رہے تھے۔ معصوم بچہ چپ چاپ زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ اڑنے کے لئے ننھے ننھے پر پھیلا تا مگر اتنی طاقت نہ تھی کہ پرواز کر سکے.... بیچارہ پھڑ پھڑا کر رہ جاتا۔ میرا کتا اس کی طرف آہستہ آہستہ جا رہا تھا کہ دفعتاً قریب کے درخت سے ایک چڑیا اتری اور کتے اور بچے کے درمیان زمین پر اس طرح آ پڑی جیسے پتھر گر پڑا ہو۔ کتے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرف دیکھ کر ایک درد ناک اور رحم طلب آواز میں چلائی اور اس کی طرف جھپٹ پڑی.... وہ اپنے ننھے بچے کو میرے کتے سے بچانا چاہتی تھی۔ اسی غرض کے لئے اس نے اسے اپنے بدن سے ڈھانپ لیا اور چیخ و پکار شروع کر دی.... اس کے چھوٹے گلے میں آواز گھٹنے لگی.... تھوڑی دیر کے بعد بے جان ہو کر گری اور مر گئی.... اور اس طرح اپنے آپ کو قربان کر دیا۔ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچے کو کتے کا لقمہ بنتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کی نظروں میں میرا کتا غالباً ایک ہیبت ناک دیو کی مانند تھا۔ وہ کیا شے تھی جو چڑیا کو شاخ صنوبر سے کشاں کشاں زمین پر لائی؟ میرا کتا حساس تھا۔ چڑیا کو اس طرح قربان ہوتے دیکھ کر ٹھٹکا اور ایک طرف ہٹ گیا۔ میں نے اسے اپنی طرف اشارہ سے بلا لیا اور آگے بڑھ گئے۔ یہ واقعہ دیکھ کر مجھے تسکین سی معلوم ہوئی۔ روح سے ایک بوجھ ہلکا ہوتا نظر آیا۔ اس بہادر چڑیا کی غیر معمولی جرات نے میرے دل میں احترام اور احساس فرض کے جذبات موجزن کر دئیے۔ میں نے خیال کیا کہ محبت، موت اور اس کی ہیبت سے کہیں زیادہ ہے اور صرف محبت ہی ایسی چیز ہے جو زندگی کے نظام کو قائم اور متحرک رکھتی ہے۔ .........